مصور سید انور علی کاظمی چیئرمین پاکستان یونین ناروے چوہدری قمراقبال سے ملاقات کررہے ہیں
اوسلو (پ۔ر)۔
نارویجن پاکستانی مصور سید انور علی کاظمی نے گذشتہ روز چیئرمین پاکستان یونین ناروے چوہدری قمراقبال سے یہاں اوسلو میں ملاقات کی۔
اس دوران پاکستان میں اوورسیزپاکستانیوں کے مسائل خصوصاً سید انور علی کاظمی کو گذشتہ سال پاکستان میں پیش آنے والی مشکلات پر گفتگو ہوئی۔ اس موقع پراس بات پر زور دیا گیا کہ حکومت پاکستان کو اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کو ترجیح بنیادوں پر حل کرنا چاہیے۔ اوورسیز پاکستانی غیر ملکی زرمبادلہ کی خطیر رقوم ہرسال پاکستان بھجواتے ہیں اور ہمیشہ اپنے آبائی وطن کی ترقی کے خواہاں ہیں۔
سید انور علی کاظمی نے چیئرمین پاکستان یونین ناروے چوہدری قمراقبال کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا جنہوں نے پاکستان میں حکام بالا کو خطوط لکھ ان کو درپیش مشکلات کو اجاگر کیا تاکہ انہیں فوری انصاف مل سکے۔
واضح رہے کہ گذشتہ سال اکتوبر میں لاہور میں بعض افراد نے سید انور علی کاظمی پر تشدد کرکے ان کے فیملی ریسٹورنٹ کاروبار پر قبضہ کرلیا تھا۔ سید انور علی کاظمی نے اپنے تمام وسائل بروئے کار لاکر اپنے پر انصافی کو پولیس اور عدالتوں کے سامنے پیش کیا اور بلاخر باوقار طریقے سے ایک جرگے میں اپنے تمام اثاثہ جات واپس لئے۔
سید انور علی کاظمی جو گذشتہ ہفتوں کے دوران پاکستان سے آبرومندانہ طور پر واپس لوٹے ہیں، نے بتایاکہ اوورسیز پاکستانیوں کو چاہیے کہ متحد ہوکر پاکستان میں اپنے مسائل کے حل کے لیے کوشش کریں۔
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ اگرچہ انہیں گذشتہ سال اپنے ساتھ ناانصافی کی وجہ سے انہیں سخت پریشانی کا سامنا پڑا لیکن اس سے ان کی پاکستان سے محبت کم نہیں ہوئی۔ پاکستان ہماری جائے پیدائش ہے اور ہم اپنے وطن کو بھول نہیں سکتے۔
چوہدری قمراقبال نے سید انور علی کاظمی کی ہمت و حوصلے کو سراہا اور کہاکہ جس دلیری اور شجاعت سے انہوں نے پاکستان میں اپنے ساتھ ناانصافی کا مقابلہ کیا، وہ قابل ستائش ہے۔ انھوں نے کہاکہ ہم نے ان کے کیس کے حوالے سے حکام بالا کو خطوط کر اپنا فرض نبھانے کی کوشش کی ہے۔
سید انور علی کاظمی پاکستانی صحافی سید سبطین شاہ کو انٹرویو دے رہے ہیں
یادرہے کہ پاکستان یونین ناروے نے نہ صرف حکام بالا بشمول وزیرداخلہ، چیف جسٹس، آئی پنجاب اور بعض دیگر اعلٰی سرکاری عہدیداروں کو خطوط لکھے بلکہ پاکستان میں میڈیا کے ذریعے اور پھر اپنے قانونی مشیر چوہدری عظمت ساہی ایڈوکیٹ کے ذریعے بھی اس کیس کو اجاگر کیا۔